“میں اور میری پیاری جمعیت”
اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ ہوئے کئی سال ہو چکے ہیں لیکن اب بھی کہیں جمعیت لکھا نظر آئے، کسی کی زبان سے ادا ہو، یا جمعیت کا انسگنیا کہیں نظر سے گزر جائے تو دل کی دھڑکن خود بہ خو د تیز ہونے لگتی ہے ، آنکھیں چمک اٹھتی ہیں ، پورا وجود ایک عجب سی کیفیت سے سرشار ہوجاتا ہے ایسی کیفیت جسے نہ الفاظ سے بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ تحریر میں ڈھالا جا سکتا ہے بس اس احساس کو جیا جا سکتا ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے افراد ہوں یا معاشرے ان پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ فرد کی انفرادی حیثیت پر جمعیت کیا اثرات مرتب کرتی ہے ؟
ہر فرد کی اپنی کہانی اور داستان ہے لیکن میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ ایک سکول کے ایسے طالبعلم جو دوچار افراد کی موجودگی میں گھبرا جایا کرتا تھا،ڈھنگ سے اپنا تعارف کروانا بھی نہیں آتا تھا جمعیت نے ایسا حوصلہ، ہمت اور اعتماد بھر دیا کہ اپنے سے بڑے طلبہ کے پروگرام کنڈکٹ کرنے سے لے کر حق اور سچ کی آواز استاد اور متعصب امام مسجد تک پہنچانے کے قابل کر دیا۔
نام نہاد دانشوروں کے محض عبادات تک کے محدود تصور کو اس کے آفاقی تصور میں بدل دیا کہ اسلام انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں صرف اپنی حاکمیت چاہتا ہے۔
ایسا نوجوان جو صرف پچھلی لائن میں بیٹھ کر درس اور لیکچر سنا کرتا تھا اسے جمعیت کے تربیتی نظام نے اس قابل کر دیا کہ سینکڑوں افراد کے سامنے ایک چھوٹے سے مدرس کے روپ میں بٹھا دیا۔
ایسا نوجوان جو شاید اپنی عمر کے لڑکوں کی کرکٹ ٹیم کو پلاننگ سے نہ چلا سکتا تھا جمعیت نے ایسی انتظامی صلاحیتیں پیدا کیں کہ سینکڑوں افراد کے پروگرامات اور تربیت گاہوں کی پلاننگ اور انتظامات کرنے کے قابل ہو گیا۔
ایک وقت تھا جب شاید کسی سے 10روپے ادھار لینا بھی ممکن نہ تھا کہ جمعیت نے وہ عزت اور مقام بخشا کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے عام افراد سے اعانت طلب کی تو افراد نے گلے لگا کر دعاوں کے ساتھ رقم تھما دی۔
سوچ اتنی محدود تھی کہ گلی ، محلے سے آگے کا بھی کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا لیکن جمعیت نے شعور میں اتنی وسعت پیدا کر دی کہ ملکی ہی نہیں بین الاقوامی حالات بھی موضوع گفتگو ہونے لگے، کشمیر کا مسئلہ کیا ہے، فلسطینی کیوں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور وہ سامراجیت کیا ہے جس کا ہدف صرف امت مسلماں ہے اور سب سے بڑھ کر بحیثیت مجموعی امت کی وہ کون سے کمزوریاں ہیں جن کی بدولت ذلت اور بربادی امت کا مقدر بن چکی ہے۔
ایک ایسا نوجوان جواپنی حق تلفی پر بھی آواز بلند کرنے سے گھبراتا تھا جمعیت نے حکمرانوں اور ان کے غنڈے پولیس والوں کے ڈنڈوں، لاٹھیوں اور گولیوں کے سامنے کھڑے ہو کر عملی میدان میں اپنی دعوت، پیغام اور جدوجہد کرنے کا جوش و جذبہ ،ولولہ اور شعور عطا کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ اللہ پاک ، والدین اور جمعیت کی وجہ سے ہوں اور اس راہ پر چلتے ہوئے جو مشکلات اور ٓزمائشوں سے دوچار ہوا ہوں یہ جمعیت کا ہی دیا ہوا شعور ہے کہ اپنے وقت کو استقامت اوراپنا مقدر سمجھ کر ہزاروں ، لاکھوں لوگوں کی زندگیوں سے بہتر اور پر عزم انداز میں گزار رہا ہوں۔
مجھے فخر ہے میں اللہ کے شیروں، محمد ﷺ کے غلاموں، اقبالؒ کے شاہینوں اور مرشد مودودیؒ کے افکار سے مزین تحریک اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ رہا ہوں بلکہ دلی اور نظریاتی طور پر اب بھی ہوں۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے افراد ہوں یا معاشرے ان پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ فرد کی انفرادی حیثیت پر جمعیت کیا اثرات مرتب کرتی ہے ؟
ہر فرد کی اپنی کہانی اور داستان ہے لیکن میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ ایک سکول کے ایسے طالبعلم جو دوچار افراد کی موجودگی میں گھبرا جایا کرتا تھا،ڈھنگ سے اپنا تعارف کروانا بھی نہیں آتا تھا جمعیت نے ایسا حوصلہ، ہمت اور اعتماد بھر دیا کہ اپنے سے بڑے طلبہ کے پروگرام کنڈکٹ کرنے سے لے کر حق اور سچ کی آواز استاد اور متعصب امام مسجد تک پہنچانے کے قابل کر دیا۔
نام نہاد دانشوروں کے محض عبادات تک کے محدود تصور کو اس کے آفاقی تصور میں بدل دیا کہ اسلام انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں صرف اپنی حاکمیت چاہتا ہے۔
ایسا نوجوان جو صرف پچھلی لائن میں بیٹھ کر درس اور لیکچر سنا کرتا تھا اسے جمعیت کے تربیتی نظام نے اس قابل کر دیا کہ سینکڑوں افراد کے سامنے ایک چھوٹے سے مدرس کے روپ میں بٹھا دیا۔
ایسا نوجوان جو شاید اپنی عمر کے لڑکوں کی کرکٹ ٹیم کو پلاننگ سے نہ چلا سکتا تھا جمعیت نے ایسی انتظامی صلاحیتیں پیدا کیں کہ سینکڑوں افراد کے پروگرامات اور تربیت گاہوں کی پلاننگ اور انتظامات کرنے کے قابل ہو گیا۔
ایک وقت تھا جب شاید کسی سے 10روپے ادھار لینا بھی ممکن نہ تھا کہ جمعیت نے وہ عزت اور مقام بخشا کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے عام افراد سے اعانت طلب کی تو افراد نے گلے لگا کر دعاوں کے ساتھ رقم تھما دی۔
سوچ اتنی محدود تھی کہ گلی ، محلے سے آگے کا بھی کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا لیکن جمعیت نے شعور میں اتنی وسعت پیدا کر دی کہ ملکی ہی نہیں بین الاقوامی حالات بھی موضوع گفتگو ہونے لگے، کشمیر کا مسئلہ کیا ہے، فلسطینی کیوں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور وہ سامراجیت کیا ہے جس کا ہدف صرف امت مسلماں ہے اور سب سے بڑھ کر بحیثیت مجموعی امت کی وہ کون سے کمزوریاں ہیں جن کی بدولت ذلت اور بربادی امت کا مقدر بن چکی ہے۔
ایک ایسا نوجوان جواپنی حق تلفی پر بھی آواز بلند کرنے سے گھبراتا تھا جمعیت نے حکمرانوں اور ان کے غنڈے پولیس والوں کے ڈنڈوں، لاٹھیوں اور گولیوں کے سامنے کھڑے ہو کر عملی میدان میں اپنی دعوت، پیغام اور جدوجہد کرنے کا جوش و جذبہ ،ولولہ اور شعور عطا کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ اللہ پاک ، والدین اور جمعیت کی وجہ سے ہوں اور اس راہ پر چلتے ہوئے جو مشکلات اور ٓزمائشوں سے دوچار ہوا ہوں یہ جمعیت کا ہی دیا ہوا شعور ہے کہ اپنے وقت کو استقامت اوراپنا مقدر سمجھ کر ہزاروں ، لاکھوں لوگوں کی زندگیوں سے بہتر اور پر عزم انداز میں گزار رہا ہوں۔
مجھے فخر ہے میں اللہ کے شیروں، محمد ﷺ کے غلاموں، اقبالؒ کے شاہینوں اور مرشد مودودیؒ کے افکار سے مزین تحریک اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ رہا ہوں بلکہ دلی اور نظریاتی طور پر اب بھی ہوں۔
(شہزاداسلم مرزا)