بدھ، 23 دسمبر، 2015

0 تبصرے


“میں اور میری پیاری جمعیت”

اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ ہوئے کئی سال ہو چکے ہیں لیکن اب بھی کہیں جمعیت لکھا نظر آئے، کسی کی زبان سے ادا ہو، یا جمعیت کا انسگنیا کہیں نظر سے گزر جائے تو دل کی دھڑکن خود بہ خو د تیز ہونے لگتی ہے ، آنکھیں چمک اٹھتی ہیں ، پورا وجود ایک عجب سی کیفیت سے سرشار ہوجاتا ہے ایسی کیفیت جسے نہ الفاظ سے بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ تحریر میں ڈھالا جا سکتا ہے بس اس احساس کو جیا جا سکتا ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ نے افراد ہوں یا معاشرے ان پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ فرد کی انفرادی حیثیت پر جمعیت کیا اثرات مرتب کرتی ہے ؟
ہر فرد کی اپنی کہانی اور داستان ہے لیکن میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ ایک سکول کے ایسے طالبعلم جو دوچار افراد کی موجودگی میں گھبرا جایا کرتا تھا،ڈھنگ سے اپنا تعارف کروانا بھی نہیں آتا تھا جمعیت نے ایسا حوصلہ، ہمت اور اعتماد بھر دیا کہ اپنے سے بڑے طلبہ کے پروگرام کنڈکٹ کرنے سے لے کر حق اور سچ کی آواز استاد اور متعصب امام مسجد تک پہنچانے کے قابل کر دیا۔
نام نہاد دانشوروں کے محض عبادات تک کے محدود تصور کو اس کے آفاقی تصور میں بدل دیا کہ اسلام انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں صرف اپنی حاکمیت چاہتا ہے۔
ایسا نوجوان جو صرف پچھلی لائن میں بیٹھ کر درس اور لیکچر سنا کرتا تھا اسے جمعیت کے تربیتی نظام نے اس قابل کر دیا کہ سینکڑوں افراد کے سامنے ایک چھوٹے سے مدرس کے روپ میں بٹھا دیا۔
ایسا نوجوان جو شاید اپنی عمر کے لڑکوں کی کرکٹ ٹیم کو پلاننگ سے نہ چلا سکتا تھا جمعیت نے ایسی انتظامی صلاحیتیں پیدا کیں کہ سینکڑوں افراد کے پروگرامات اور تربیت گاہوں کی پلاننگ اور انتظامات کرنے کے قابل ہو گیا۔
ایک وقت تھا جب شاید کسی سے 10روپے ادھار لینا بھی ممکن نہ تھا کہ جمعیت نے وہ عزت اور مقام بخشا کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے عام افراد سے اعانت طلب کی تو افراد نے گلے لگا کر دعاوں کے ساتھ رقم تھما دی۔
سوچ اتنی محدود تھی کہ گلی ، محلے سے آگے کا بھی کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا لیکن جمعیت نے شعور میں اتنی وسعت پیدا کر دی کہ ملکی ہی نہیں بین الاقوامی حالات بھی موضوع گفتگو ہونے لگے، کشمیر کا مسئلہ کیا ہے، فلسطینی کیوں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور وہ سامراجیت کیا ہے جس کا ہدف صرف امت مسلماں ہے اور سب سے بڑھ کر بحیثیت مجموعی امت کی وہ کون سے کمزوریاں ہیں جن کی بدولت ذلت اور بربادی امت کا مقدر بن چکی ہے۔
ایک ایسا نوجوان جواپنی حق تلفی پر بھی آواز بلند کرنے سے گھبراتا تھا جمعیت نے حکمرانوں اور ان کے غنڈے پولیس والوں کے ڈنڈوں، لاٹھیوں اور گولیوں کے سامنے کھڑے ہو کر عملی میدان میں اپنی دعوت، پیغام اور جدوجہد کرنے کا جوش و جذبہ ،ولولہ اور شعور عطا کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ اللہ پاک ، والدین اور جمعیت کی وجہ سے ہوں اور اس راہ پر چلتے ہوئے جو مشکلات اور ٓزمائشوں سے دوچار ہوا ہوں یہ جمعیت کا ہی دیا ہوا شعور ہے کہ اپنے وقت کو استقامت اوراپنا مقدر سمجھ کر ہزاروں ، لاکھوں لوگوں کی زندگیوں سے بہتر اور پر عزم انداز میں گزار رہا ہوں۔
مجھے فخر ہے میں اللہ کے شیروں، محمد ﷺ کے غلاموں، اقبالؒ کے شاہینوں اور مرشد مودودیؒ کے افکار سے مزین تحریک اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ رہا ہوں بلکہ دلی اور نظریاتی طور پر اب بھی ہوں۔
(شہزاداسلم مرزا)

جمعہ، 20 نومبر، 2015

" سوری عوام جی "

0 تبصرے
" سوری عوام جی  "
میں آج تک عوام کی سوچ اور خواہشات کا غلط اندازہ لگا کر پیش کرتا رہا ۔ میں سمجھتا تھا پی پی پی انتہائی کرپٹ اور نااہل پارٹی ہے عوام نے ان پر بار بار اعتماد کیا مگر یہ عوام کو غربت، محرومی اور بدترین غلامی کے سوا کچھ نہ دے پائی، پی پی پی نے عوام کے جزبات سے کھیلا ہے مگر سندھ کی عوام نے مجھے جھنجھوڑ کر بتایا کہ تم غلط سوچتے ہو، ہمیں یہی پارٹی تو چاہئے جس کے دامن میں ہی سکون ملتا ہے۔
میں آج تک یہی سوچتا رہا مسلم لیگ (ن) نے خصوصا پنجاب کے عوام کا بدترین استحصال کیاانہیں چند میگا پراجیکٹ کے پیچھے لگا کر انہیں پٹوایوں، تھانے داروں اور جاگیر داروں و صنعت کاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے اور بدترین خاندانی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے مگر پنجاب کی عوام نے زور دار انداز سے مجھے بتایا تم غلط تھے، ہماری تمام آرزوؤں کی واحد علامت مسلم لیگ ن ہی ہے۔
مجھے لگتا تھا ایم کیو ایم نے کراچی و حیدرآباد کو قتل و غارت ، بھتہ خوری ، بوری بند لاشوں اور مافیا ٹائپ بدترین غلامی میں مبتلا کر رکھا ہے، یہ دھونس اور دھاندلی کے ذریعے عوام کے سروں پر قابض ٹولہ ہے مجس سے عوام بہت تنگ ہے مگر اربن سندھ نے ثابت کر دیا کہ غلط سوچتے ہو ہمیں بھتہ خور اور قاتل پسند ہیں اپنی سوچ اپنے پاس ہی رکھو۔
٭ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اب عوام تبدیلی چاہتے ہیں یا کم از کم بہتری تو ضرور چاہتے ہیں سب بکواس سمجھتے تھے اس عوام کو اپنی رسی، اپنا ڈربہ، اپنا اسطبل، اپنا پنجرہ اور اپنا پٹہ بہت عزیز ہے واقعی کسی نے سچ کہا غلامی کی زنجیریں توڑنا اتنا آسان نہیں ، ایک مطمئن غلام اپنی زنجیروں سے بہت پیار کرتا ہے۔سوری عوام جی
(شہزاداسلم مرزا)

پیر، 9 نومبر، 2015

0 تبصرے
"علامہ اقبالؒ اور آج کا نوجوان"
حضرت علامہ اقبالؒ ان عظیم افراد میں شامل ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور صدیوں تک اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر کسی کم ظرف حکمران کی تائید کی ہر گز محتاج نہیں ہے مگر میرا تو سارا احتجاج ان نوجوانوں کے رویوں پر ہے جن کی زندگیوں کو باعزت ، باکردار اور بامقصد بنانے کے لئے علامہ نے تقریبا سارا کلام لکھا۔ 
علامہ اقبالؒ نے خودی کا سبق دیا تو آج کے نوجوانوں نے "سیلفی" کو ہی خودی کا مطلب سمجھ لیا، علامہ نے مغربی تہذیب سے دور رہنے کی تلقین کی مگر مغربی تہذیب ہی ہمارے نوجوان کے لئے رول ماڈل بن گئی ، علامہ نے نوجوانوں کو شاہین سے تعبیر کرکے اعلیٰ صفات کا حامل بننے کے لئے ابھارامگر نوجوانوں نے شارٹ کٹ، رشوت اور ترک وطن کو ہی بہترین صفت سمجھ لیا، علامہ نے اسلامی نظریہ کو نظام کی بنیاد قرار دیا مگر قوم کے نوجوانوں نے سیکولرزم اور آزادخیالی کو بطور نظام پسند کر لیا، علامہ نے ملوکیت کو خطرناک قرار دیا نوجوانوں نےشخصیت پرستی کو ہی قبول کر لیا ، بالوں کی بےڈھنگی کٹنگ، کانوں میں بالی ، گلے میں ہار ، تنگ پتلونے پہنے اور چوکوں چوراہوں پر کھڑے نوجوان کیا واقعی کبھی علامہ اقبالؒ کے شاہین بن سکتے ہیں؟۔ نوجوان اگر حقیقت میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے خود کو بدل اقبال کی سوچ کے مطابق بنانا ہو گی کیونکہ ۔ ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(شہزاداسلم مرزا)

منگل، 27 اکتوبر، 2015

"زلزلے بے سبب نہیں آتے"

0 تبصرے
"زلزلے بے سبب نہیں آتے"
میں سائنسی تاویلات کے ہر گز مخالف نہیں ہوں مگر جب ہم مسلمان بھی غیر مسلموں کی طرح زلزلے جیسی آفات کومحض علاقے کے فالٹ لائن پر ہو نے ، زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی ہونے یا زیر زمین پلیٹوں کے ہل جانے کے انداز میں ہی سوچتے ہیں تو میرا خوف بڑھ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بار بار متنبہ کرنے کے باوجود ہم بحیثیت مجموعی اپنے اندر اخلاقی و معاشرتی بگھاڑ کو نہ تو دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ان پر شرمندہ و معافی کے طلبگار ہونا چاہتے ہیں۔ ہم کبھی آفات آسمانی و زمینی کو ان تعلیمات کے تناظر میں سوچنا ہی نہیں چاہتے جو اللہ نے اپنے پیارے محبوبﷺ کے ذریعے ہمیں بتائیں اور سیکھائی ہیں۔ کیا کبھی ہم نے سوچا اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں اللہ نے سود سے منع کیا ہم نے مکمل سودی نظام اپنا لیا ، اللہ نے فحاشی سے روکا مگر فحاشی ہماری معاشرتی پہچان بن چکی ، اللہ نے ناپ تول اور کرپشن سے روکا مگر یہ ہمارے کاروبار کے اولین اصول قرار پائے ، اللہ نے غرباء پر ظلم سے روکا مگر یہاں ظالم ہی باعزت ٹھہرا ، اللہ نے عدل و انصاف کو حکمرانوں کے لیئے اولین ترجیح قرار دیا مگر ہم نے خود ایسے حکمران منتخب کیئے جنہوں نے اقرباء پروری اور خاندانی اجارہ داری کو اولین مقصد بنا لیا تو پھر اللہ تو ناراض ہو گا اور زلزلےاور سیلاب بھی آئیں گے۔ کاش ہمارے ملک میں کوئی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ جیسا عادل اور خوف خدا رکھنے والا حاکم ہوتا جو زلزلے سے ہلتی ہوئی زمین پر پاؤں مار کر کہتا کہ کیوں ہلتی ہو کیا عمر تم پر انصاف نہیں کرتا اور زلزلہ رک جاتا۔
جب تک ہم زندگی کے اطوار ، اپنا چال چلن ، اخلاقی اوصاف اور سب سے بڑھ کر حکمرانوں کے چناؤ کےمعیار کو بہتر نہیں بنائیں گے ہمیں ایسی آفات کے لیے ذہنی طور پر ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ ‫#‏ذراسوچو‬
(شہزاداسلم مرزا)

ہفتہ، 3 اکتوبر، 2015

"سراج الحق کو کوئی معافی نہیں"

0 تبصرے
"سراج الحق کو کوئی معافی نہیں"
امام کعبہ ہوں یا کسی گاؤں کی مسجد کا امام دوران نماز غلطی ہو جانا عام سی بات ہے مگر چونکہ یہ غلطی اس بارسراج الحق صاحب سے ہو گئی تو اس کا تماشا بنانا اور سوشل میڈیا پر ثواب سمجھ کر پھیلانا ان متعصب اور غلیظ سوچ کی عکاسی کرتاہے جو مدت سے سخت تگ و دو کے باوجود سراج الحق کے خلاف نہ کرپشن کا الزام تلاش کر سکے نہ جائیداد بیرون ملک بھیجنے کا، نہ دور جوانی کی عیاشیوں کا، نہ موروثیت کا، نہ بھتے اور قتل کا، نہ فرقہ واریت پھیلانے کا اور نہ مال بنانے کا الزام لگا سکے تو نماز میں سہواً غلطی کو ہی اشو بنا لیا۔
سراج صاحب جب سے امیر جماعت اسلامی بنے ہیں انہوں نے کئی عیدوں کی نماز پڑھائی ، بے شمار جمعے پڑھائے، بے شمار نماز جنازے پڑھائے اور ہر روز پنجگانہ نماز پڑھاتے ہیں ان سب کی تو آج تک کسی نےویڈیو شیئر نہیں کی بس ایک انسانی خطا کا کلپ بنا کر شیئر کرنا شروع کر دیا۔ واقعی کچھ لوگوں کی فطرت اس مکھی جیسی ہوتی ہے جو صاف ستھرا جسم چھوڑ کر صرف زخم پر بیٹھتی ہے۔ سجدہ سہو اسی لیئے ہے کہ انسان غلطی ضرور کرے گا تو اس عمل کے ذریعے اس کا کفارہ ادا کر دیے۔ عجب تماشا ہے جن کے لیڈران کو کبھی مسجد میں نماز پڑھتے بھی نہیں دیکھا وہی اسے شیئر کر رہے ہیں۔
ویسے بھی جناب نماز میں غلطی امام سے ہی ہوتی ہے اور امام ہو نا ان بدنصیبوں کی قسمت میں کہاں جن کا سارا وجود ہی حرام خوریوں سے بھرا پڑا ہے۔ سیاسی لیڈروں میں سے امام ہونے کا اعزاز سراج الحق جیسے قائد کو ہی زیبا ہے ۔ ‫#‏ذراسوچو‬
(شہزاداسلم مرزا)

جمعہ، 18 ستمبر، 2015

"ایک اور حملہ اور ہمارے قومی رویے"

0 تبصرے
"ایک اور حملہ اور ہمارے قومی رویے"
پشاورایئرفورس کےبڈھ بیرکیمپ پرحملہ
کیپٹن اسفندیار سمیت 29 نمازی شہید جبکہ 13 دہشت گرد واصل جہنم 
اس سے پہلے جتنے بھی دہشتگردی کے واقعات پاکستان میں ہوئے خاص کر ملٹری انسٹالیشن پر کسی کی رپورٹ عوام کے سامنے نہیں لائے گئی اور نہ یہ بتایا گیا کہ آئندہ ایسے واقعات روکنے کے لیئے کیا حکمت عملی بنائی گئی ہے ، اتنے سنگین واقعات پر بھی قو م کو ساتھ لے کر چلنے کی بجائے سیاسی ہو یا ملٹری قیادت ہر طرف ایک روائتی اور گھسا پٹھا ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہوتا ہے۔
٭سیاستدانوں کی طرف سے شدید مذمتی بیانات اور زخمیوں کے لیئے دعا خیر
٭فوج کی طرف سے ایسے واقعات کو بزدلانہ قرار دیتے ہوئے آئندہ برداشت نہ کرنے کا عزم
>اورپھر آہستہ آہستہ نرم نرم انداز میں الزامات کا آغاز
٭ ایک جمہوریت بےزار طبقہ اپنی توپوں کا رخ سیاستدانوں کی طرف کر لے گا کہ سیاستدان متحد نہیں ہیں، قوم کو متحد کرنے میں ناکام رہے ہیں، ان ناہلوں سے تو فوج ٹیک اوور کر لے تو بہتر ہے۔اپوزیشن کے حکومت کی ناکامی اور حکومت کی اپوزیشن پر انتشار پھیلانے کے الزامات کا آغاز۔
٭ دوسرا پاک فوج بےزار طبقہ فوج کے خلاف جھاگ نکالنا شروع کر دے گاکہ ایسے واقعات ملٹری صلاحیت پر سوالیہ نشان ہیں، کہاں گئیں انٹیلی جینس ادارے، اتنا بجٹ فوج پر لگایا جاتا ہے اور کارکردگی یہ ہے کہ دہشتگرد آرام سے اہم علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں۔
٭تیسرا دین بےزار طبقہ اسے علماء اور مدارس کے بازو مروڑنے کا بہترین ذریعہ سمجھ کر کف چڑھا کر سامنے آ جائیں گے کہ سب علماء کی ناکامی ہے، یہ دہشتگردوں کے لیئے سافٹ کانر رکھتے ہیں، جب تک مدارس قائم ہیں دہشتگردی کبھی ختم نہیں ہو گی۔ ان مدارس کے خلاف ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
>اگر یہ قوم کے مستقبل کی جنگ ہے تو کیا ایسے لڑی جائے گی یہ جنگ، دہشتگرد متحد اور فوکس ہیں مگر قوم تقسیم در تقسیم، ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے مشن پر گامزن، میڈیا قوم کو متحد کرنے کی بجائے اپنے مخصوص مقاصد کا پرچارکرتے ہوئے۔ امریکہ یا برطانیہ کی پیروی کا بہت بھاشن دیا جاتا ہے اگر نقالی کرنی ہے تو اس بات میں کریں کیسےوہ قوم متحد ہو گئی سب کی ایک سوچ، ایک نظریہ اور ایک ہدف یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں کوئی دوسرا 9/11 اور برطانیہ میں 7/7 نہیں ہوا۔
کیا پاکستانی قوم کے پاس ہر طرح کی دہشتگردوں کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے پرمتحد ہونے کے علاوہ کوئی چارہ کار بچا ہے ؟؟؟ ذراسوچو
(شہزاداسلم مرزا)

پیر، 14 ستمبر، 2015

"مسجد اقصیٰ لہولہو"

0 تبصرے
"مسجد اقصیٰ لہولہو"
پوری امت مسلمہ بالخصوص مسلم حکمرانوں پر کیسی بے حسی، بےغیرتی اور بےضمیری چھائی ہوئی ہے کہ کل اسرائیلی فورسز نے دوبارہ قبلہ اول مسجد اقصیٰ پر حملہ کر کےمسجد کے بہت سے حصوں کو آگ لگا دی اور اوپن فائرنگ سے سینکڑوں فلسطینی نوجوان ، مائیں ، بہنیں بزرگ اور بچے زخمی اور گرفتار ہیں۔ سلام ہے فلسطین کے مظلوم اور نہتے نوجوانوں، بزرگوں ، بچوں اور ماؤں بہنوں کو جو اسرائیلی دہشتگردوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
ہر طرف مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے فلسطین ، کشمیر ، عراق، افغانستان اور شام کی سرزمین کفار کے قبضے اور ظلم کا شکار ہے بارونق علاقے کھنڈرات اور آبادیاں قبرستان کا روپ پیش کر رہی ہیں مگر ہر طرف سکوت مرگ طاری ہے۔
٭ اقوام متحدہ سے کیا گلہ کیا جائے جب او آئی سی ہی بےغیرتی کی نیند سوئی پڑی ہے ۔
٭مغربی ممالک کو کیا الزام دیں کہ 57 مسلم ممالک بزدلی اور بےغیرتی کی تصوریر بنےخاموش ہیں۔
٭مغربی میڈیا سے کیا شکایت کی جائے جب مسلم کنٹرول میڈیا پر ہر طرف محض بےمقصدیت اور بےہودگی کا راج ہے۔
کیا واقعی اس وقت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور صلاح الدین ایوبی کا کوئی ایسا پیروکار نہیں جو سرزمین فلسطین کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کر سکے ۔۔۔ کیا واقعی محمد بن قاسم اور محمودغزنوی جیسے غیرت مند پیدا ہونے بند ہو گئے ہیں جو ہندوؤں کی دہشتگردی سے سرزمین کشمیراورکشمیری بہن بیٹیوں کا دفاع کرے۔
یااللہ تیری امت پر غیرت اور جرات کا یہ کیسا قحط طاری ہے
یااللہ ان مظلوموں کو ظالموں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ۔
یااللہ تو ان کا حامی مددگار بن جا۔ آمین ثم آمین
(شہزاداسلم مرزا)